نارسائی
چودھویں رات کے چاند اور زمیں کے مابین
نارسائی کا جو دکھ ہے وہ ہمارا دکھ ہے
سرمئی ہجر کی تا حد نظر پہنائی
ان گنت تاروں کے جھرمٹ میں چھپی تنہائی
چاند کے دکھ کا مداوا نہیں یہ یکتائی
رخ مہتاب کو چھونے کی لگن میں بے تاب
کہکشاؤں کی عروسہ کے مچلتے ارمان
سینۂ بحر پہ بپھری ہوئی پاگل موجیں
رات بھر شدت جذبات سے یوں اٹھتی ہیں
جس طرح پچھلے پہر لمس کی حسرت جاگے
جیسے رگ رگ میں سلگتی ہوئی تشنہ خواہش
جسم کے سارے مساموں میں چراغاں کر دے
ہائے اس کرب کے عالم میں کہاں ممکن ہے
قبل از روز جزا چاک جدائی سلنا
آسماں زاد کا اس خاک پری سے ملنا
قوت ثقل کی ڈوروں سے بندھے یہ اجرام
دائروں میں یوں مقید ہیں کہ کچھ بھی کر لیں
ایک دوجے کی پناہوں میں نہیں جا سکتے
شاید ان نور کے پاروں کی طرح ہیں ہم بھی
کب سے محتاط خموشی کے مداروں میں رواں
اک جنوں خیز محبت کا سفر کرتے ہیں
ہجر میں دل یوں سلگتے ہیں کہ جاں جاتی ہے
وعدۂ قرب خدا جانے وفا ہو کہ نہ ہو
وصل کا سوچ کے ہی جان پہ بن آتی ہے
ٹوٹ کر بکھرے جو آغاز جہاں میں ریزے
ساعت حشر کے آنے پہ ہی یکجا ہوں گے
مہر و مہ ارض و سما روح بدن بھی یعنی
آخرش ایک اکائی میں سمٹ جائیں گے
نارسائی کے عذابوں میں یوں گزری ہے حیات
جی میں آتا ہے کہ اب کوئی قیامت اترے
توڑ کر اپنے مداروں کو ملاقاتیں ہوں
مہرباں شامیں ہوں کچھ خوشبو بھری راتیں ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.