اک غزل
مصرعہ مصرعہ جسے
ہم نے مل کر اتارا تھا قرطاس پر
وہ غزل
جس کے ہر حرف ہر لفظ ہر شعر کو
ہم نے کنداں کیا
لوح احساس پر اپنے انفاس پر
وہ غزل
سرخ ہجرت کے جزدان میں
ہم صحیفہ سمجھ کر چھپاتے رہے
اپنی آنکھوں سے اس کو لگاتے رہے
اس کو پڑھتے رہے گنگناتے رہے
ایک دوجے کو رو رو سناتے رہے
اور پھر ایک دن
موت سے ماورا وقت کا اژدہا
چاہتوں کے کلیسا میں داخل ہوا
اور انفاس میں زہر شامل ہوا
لوح احساس سے
حرف سب اڑ گئے
لفظ سب مٹ گئے
وہ مکمل غزل
مصرعہ مصرعہ جسے
ہم نے مل کر اتارا تھا قرطاس پر
اور کنداں کیا لوح احساس پر
نامکمل ہوئی
تم سے دوری ہوئی
جو تھی پوری غزل وہ ادھوری ہوئی
ہم جدا ہو گئے ہم الگ ہو گئے
آدھے مصرعے ترے
آدھے مصرعے مرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.