نالۂ فراق
دلچسپ معلومات
( آرنلڈ کي ياد ميں (حصہ اول : 1905 تک ( بانگ درا) آرنالڈ کی یاد میں) یہ نظم اقبال نے اپنے شفیق استاد ڈاکٹر آرنالڈ کی یاد میں لکھی تھی ۔ مولانا سید میر حسن نے جس طرح اقبال کو فارسی ادب اور شعرو سخن کا شیدائی بنا دیا تھا اسی طرح آرنالڈ انے بھی اقبال کو فلسفہ کا گرویدہ کیا ۔۔)
جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں
آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں
ظلمت شب سے ضیائے روز فرقت کم نہیں
''تاز آغوش وداعش داغ حیرت چیدہ است
ہمچو شمع کشتہ درچشم نگہ خوابیدہ است''
کشتۂ عزلت ہوں آبادی میں گھبراتا ہوں میں
شہر سے سودا کی شدت میں نکل جاتا ہوں میں
یاد ایام سلف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں
بہر تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں
آنکھ کو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے
اجنبیت ہے مگر پیدا مری رفتار سے
ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا
آئنہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا
نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا
آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا!
ابر رحمت دامن ازگلزار من برچید و رفت
اندکے برغنچہ ہائے آرزو بارید و رفت
تو کہاں ہے اے کلیم ذرۂ سینائے علم!
تھی تری موج نفس باد نشاط افزائے علم
اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
''شور لیلیٰ کو کہ باز آرائش سودا کند
خاک مجنوں را غبار خاطر صحرا کند''
کھول دے گا دشت وحشت عقدۂ تقدیر کو
توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو
دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو
کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو
''تاب گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا
خامشی کہتے ہیں جس کو ہے سخن تصویر کا''
- کتاب : کلیات اقبال (Pg. 77)
- Author : علامہ اقبال
- مطبع : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.