میری جاں تمہاری یہ ناراضگی میرے سینہ میں چبھتے ہوئے کب مری زندگی کو نگل جائے گی اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہے
مرے دوستوں کی نشستیں تو ایسی کبھی بھی نہیں تھیں
کہ گر ساتھ بیٹھیں تو دارو کی بوتل کے کھلنے کی نوبت بھی ہو
یہ عجب بھی نہیں ہے کہ میں آج کل میرے مرنے کی جلدی میں پینے لگا ہوں
عجب تو یہ ہے میری کٹتی ہوئی عمر باقی بچی عمر کی فکر میں کب گزرنے لگی یہ پتہ تب چلا جب ترے فیصلے میری مرضی سے یکسر جدا طے ہوئے
جب مرے چاہنے والے کہنے لگے بس بہت ہو چکا یہ بچی رم ہمارے لیے آئی ہے جاؤ کمرے میں جاؤ دوائی پیو
عمر شاید کسی زندگی سے کسی موت تک کا بھیانک سفر ہے جو ایک ہی زمان و مکاں میں ٹھہر کر ہی کٹ جائے گا
اس میں اپنی جگہ مطمئن رہ سکو تو یہ رستہ بھی پیروں کے نیچے سے خود ہی سرک جائے گا
عمر شاید کوئی جاگتے حال کا آفریں خواب ہے جس میں رہتے ہوئے آنکھ تھک جائے گی اور پھر بستر مرگ پر جا کے سو جائے گی
آنکھ کھل جائے گی موت ہو جائے گی
اب میں آخر جو مرنے کی صورت پہ ہوں
تو میں یہ سوچتا ہوں کہ میں میری فطرت کو زندہ رکھوں
یعنی جیسا تھا میں اب میں ویسا رہوں
تیری ناراضگی بھی کبھی کم نہ ہو
عمر جتنی بچی ہے وہ گھٹتی رہے
میری کٹتی رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.