نئے سال کی بند مٹھی
اچانک دبے پاؤں وہ آ گیا تھا
کھلی بند مٹھی تو یہ حکم جاری ہوا
ہم کو لمبی مسافت کو جانا ہے لیکن
سفر کے لئے کوئی وقفہ نہیں تھا
سفر کو بہ عجلت روانہ ہوئے اس طرح ہم
نہ زاد سفر تھا
نہ مقصد
نہ کوئی ارادہ
فقط لا شعوری طریقے سے اپنے قدم اٹھ رہے تھے
بگولے ہوائیں تھپیڑے
اجالے اندھیرے
اندھیرے اجالے
فقط دھند ہی دھند تھی دور تک
دیر تک
ہم بھٹکتے رہے
تھک گئے پھر بھی چلتے رہے
تھی اطاعت گزاری ہی اپنا مقدر
اور اس سے مفر کا کوئی راستہ بھی نہیں تھا
سفر میں کئی موڑ ایسے بھی آئے
جہاں اپنے دیرینہ احباب کو
بے بسی سے ہر اک آن بڑھتی ہوئی دھند میں ڈوبتے دیکھتے رہ گئے
اپنے بس میں نہیں تھا
کہ ہم خود پہ لادی ہوئی بے بسی
بھڑکتی ہوئی آگ اور خون کی ندیوں سے
کسی طور ہم ہانپتے اپنی منزل کو پہنچے
وہ منزل کہاں تھی
فقط بے کسی نا مرادی کا انجام تھا وہ
اچانک دبے پاؤں پھر آ گیا ہے وہی
اپنی مٹھی کو سختی سے بھینچے ہوئے
کیا پتہ اس میں پھولوں کی بستی کو جانے کا پیغام ہے
یا کسی وادیٔ خار کو کوچ کرنے کا فرمان کوئی
فقط طفل ناداں کی مانند ہم
اس کی مٹھی میں پوشیدہ احکام کے پیش ہیں چپ کپڑے
آنے والے کسی حادثے کا تصور لئے
خوف سے کانپتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.