روح انساں کی جواں تشنہ لبی کی خاطر
زنگ آلود تمناؤں کی زنجیر لیے
پھر سحر رات کے زنداں سے نکل آئی ہے
صبح لائی ہے اجالوں کا چھلکتا ہوا جام
رات کی آنکھوں سے ٹپکا ہے ستاروں کا لہو
تیرہ و تار فضا ڈوب گئی ہے خود میں
دور سورج کی سلگتی ہوئی آہوں سے پرے
میری ہر فکر کی ہر سوچ کی راہوں سے پرے
دل کی آنکھوں سے پرے میری نگاہوں سے پرے
پھر وہی فکر سفر فکر طلب فکر زوال
پھر وہی تیز مسائل وہی خونخوار سوال
پھر سیہ پوش تصور کا سیہ پوش کمال
پھر اٹھائے ہیں تمناؤں نے خوابوں کے کفن
پھر وہی پیٹ کے مانوس تقاضوں کی چبھن
پھر لہو روتی ہے افلاس کی مدقوق دلہن
روح انساں کی جواں تشنہ لبی کی خاطر
زنگ آلود تمناؤں کی زنجیر لیے
پھر سحر رات کے زنداں سے نکل آئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.