نئی صدی تجھے شاعر سلام کہتا ہے
بصد خلوص بصد احترام کہتا ہے
نئی صدی تجھے شاعر سلام کہتا ہے
تجھے خبر ہی نہیں ہے تو میں یہ بتلا دوں
ترس رہا ہے ابھی آدمی خوشی کے لئے
دل و نظر پہ اندھیروں کا راج ہے پھر بھی
بشر نے یوں تو جلائے ہیں آگہی کے دیے
ہر ایک دل سے اندھیروں کو تو مٹا دینا
محبتوں کے دیے ہر طرف جلا دینا
نئی صدی تجھے شاعر سلام کہتا ہے
نئی صدی تو ہمیں ایسا آئنہ دے دے
ہم اپنے چہرے کے داغوں کو خود ہی پہچانیں
پرائے عیبوں پہ انگلی اٹھانے سے پہلے
ہم اپنے اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں
خود احتسابی کا جذبہ ہمیں میسر ہو
ہماری نظروں میں اچھائیوں کا منظر ہو
نئی صدی تجھے شاعر سلام کہتا ہے
صلیب و دار پہ سچائیوں کی لاشیں ہیں
لبوں پہ خوف کے تالے لگے ہیں لوگوں کے
یہ کیسا خوف ہے چھایا ہوا ہر اک جانب
سنبھل سنبھل کے قدم اٹھ رہے ہیں لوگوں کے
اب اس مہیب سے احساس کو ہٹا دینا
دلوں پہ طاری ہے جو خوف اسے مٹا دینا
نئی صدی تجھے شاعر سلام کہتا ہے
گئی صدی نے تو کیا کیا ذلیل و خوار کیا
جو بے گناہ تھے ان کو بھی سنگسار کیا
خدا قبول کرے امن کی دعاؤں کو
زمیں پہ خوف کے بادل نہ اب کبھی چھائیں
نہ کوئی آگ لگے برف کے پہاڑوں میں
خزاؤں سے نہ گلستاں کے پھول مرجھائیں
نئی صدی نیا موسم نئی ہوا دینا
محبتوں کے چمن ہر طرف کھلا دینا
نئی صدی تجھے شاعر سلام کہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.