Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نجات

دکھتے ہوئے سینوں کی خوشبو کے ہاتھوں میں

ان جلتے خوابوں کے لہراتے کوڑے ہیں

جنہیں وہ اک گہنائے چاند کی ننگی کمر پہ برساتی رہتی ہے

تیرگی بڑھتی جاتی ہے

اور ہمارا چاند ابھی تک ایسی کہنہ سال حویلی کا قیدی ہے

جسے ہوا اور بادل نے تعمیر کیا ہے

جس کی گیلی دیواروں پر منڈھی ہوئی بیلوں میں

ایسی کھوپڑیاں کھلتی ہیں

جن کی آنکھوں کے خالی حلقوں میں ماضی حال اور مستقبل کے

گڈمڈ رنگوں کے بے نور دھندلکے جمے ہوئے ہیں

تم ہی بتاؤ جب شاخوں سے

فاختئی نیلے پھولوں کی بجائے

کھوپڑیاں پھوٹیں

صبح بہار کا سورج ان سے آنکھ ملا کر کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟

اسی لیے تو اس ویران حویلی کے آنگن میں خزاں کے نغمے

زندہ انسانوں کے نوحے بن کر گونجتے ہیں

نم آلود فضا کے نادیدہ سینے پر

صبر کی سل کی طرح رکے ہوئے برفیلے سورج

شام کی اکھڑی ہوئی چوکھٹ پر

اپنے سر گھٹنوں میں چھپا کر سوچتے ہیں

کبھی تو صدیوں کی آوارگیوں کا بوجھ اٹھائے کوئی مسافر

اسم رہائی کو زیر لب دہراتے ہوئے

اس بے رنگ حویلی کے دروازے پر

وہ دستک دینے آئے گا

کھل کر بارش برسے گی اور چاند رہا ہو جائے گا

RECITATIONS

نعمان شوق

نعمان شوق,

00:00/00:00
نعمان شوق

نجات نعمان شوق

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY

You have remaining out of free content pages per year. Log In or Register to become a Rekhta Family member to access the full website.

بولیے