نمک ناپید ہے نایاب ہے
امیدوں آرزوؤں خوابوں کو مسمار کرتا سوچتا ہوں میں
یہ میرے دست و بازو ہیں
کسی تعمیر سے پہلے ہوئی تخریب کے حامل کبھی تھے جو
سفر درپیش یہ کیسا
کہاں پر آ گیا ہوں میں
مکانوں کے بدن کو روح سے محروم کرتا ہوں
یہ آہیں سسکیاں چیخیں
کھنڈر پر بال بکھرائے
کہیں دیوانگی کا رقص کرتی ہیں
کہیں پر قہقہے بھی کھنکھاتے ہیں
یہ تخت و تاج کا نشہ
خرد کو چھین لیتا ہے
کہ جب بازار طاقت میں منات و لات اور عزیٰ
بدل کر ماہیت اعل حبل کا ورد کرتے ہیں
تو ارزانی لہو کی چھونے لگتی ہے فلک کو
یہ نشہ جونک کی صورت
رعایا کی صداؤں کا لہو پیتا
بدن سے لپٹا رہتا ہے
نمک لاؤ
نمک لائیں کہاں سے کہ
نمک ناپید ہے نایاب ہے اس قحط سالی میں
اجارہ داری اس کی تخت شاہی کے لیے محفوظ ہے اب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.