نقدی کہاں سے آئے گی
پہلے راتیں اتنی لمبی کب ہوتی تھیں
جو بھی حساب اور کھیل ہوا کرتا تھا
سب موسم کا تھا
روز و شب کی ہر ساعت کا اک جیسا پیمانہ تھا
اپنے ملنے والے سارے
جھوٹے سچے
یاروں سے اک مستحکم یارانہ تھا
لیکن
اپنے درد کی سمتوں کی پہچان نہ رکھنے والے دل
یہ سوچنا تھا
ہر خواب کی قیمت ہوتی ہے
اور اب ان دو آنکھوں میں اتنے
طرح طرح کے
دنیا بھر کے خواب بھرے ہیں
ان میں سے اک اک کو گن کر
سب کے مناسب دام چکانا
اس کے لیے تو دو صدیاں بھی کم ہوں گی
کنگلے
اتنی نقدی کہاں سے آئے گی
- کتاب : pushtara (Pg. 112)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.