نقاد
رحم اے نقاد فن یہ کیا ستم کرتا ہے تو
کوئی نوک خار سے چھوتا ہے نبض رنگ و بو
شاعری اور منطقی بحثیں یہ کیسا قتل عام
برش مقراض کا دیتا ہے زلفوں کو پیام
کیوں اٹھا ہے جنس شاعر کے پرکھنے کے لیے
کیا شمیم سنبل و نسریں ہے چکھنے کے لیے
اے ادب نا آشنا یہ بھی نہیں تجھ کو خیال
ننگ ہے بزم سخن میں مدرسے کی قیل و قال
منطقی کانٹے پہ رکھتا ہے کلام دل پذیر
کاش اس نکتے کو سمجھے تیری طبع حرف گیر
یعنی اک لے سے لب ناقد کو کھلنا چاہیئے
پنکھڑی پر قطرۂ شبنم کو تلنا چاہیئے
شعر فہمی کے لیے ہیں جو شرائط بے خبر
سوچ تو پورا اترتا بھی ہے اس معیار پر
جلتے دیکھا ہے کبھی ہستی کے دل کا تو نے داغ
آنچ سے جس کی غذا پاتا ہے شاعر کا دماغ
دل سے اپنے پوچھ او زندانیٔ علم کتاب
حسن قدرت کو بھی دیکھا ہے برافگندہ نقاب
تو پتا اسرار ہستی کا لگاتا ہے کبھی
عالم محسوس سے باہر بھی جاتا ہے کبھی
کیا وہاں بھی اڑ کے پہنچا ہے کبھی اے نکتہ چیں
کانپتا ہے جس فضا میں شہپر روح الامیں
خامشی کی نغمہ ریزی پر بھی سر دھنتا ہے تو
قلب فطرت کے دھڑکنے کی صدا سنتا ہے تو
اب بتوں کی بزم میں تو بھی ہوا ہے باریاب
خاک کو پرچھائیاں جن کی بناتی ہیں گلاب
جو تبسم چھین لیتے ہیں شب مہتاب سے
جن کی برنائی جگاتی ہے دلوں کو خواب سے
سچ بتا تو بھی ہے کیا اے کشتۂ صد حرص و آز
راز دان کاکل شب رنگ و چشم نیم باز
تیری نبضوں میں بھی مچلی ہے کبھی بجلی کی رو
سوز غم سے تیرا دل بھی کیا کبھی دیتا ہے لو
سچ بتا اے عاشق دیرینۂ فکر معاش
زہر میں تریاک کے عنصر کی بھی کی ہے تلاش
مجھ سے آنکھیں تو ملا اے دشمن سوز و گداز
تجھ پہ کیا اضداد کی توحید کا افشا ہے راز
تیری راتوں کی سیاہی میں بھی اے ظلمت مآب
کیا کبھی طالع ہوا ہے مسکرا کر آفتاب
تو گیا بھی ہے نگار غم کی محمل کے قریب
آنچ سی محسوس ہوتی ہی کبھی دل کے قریب
طور معنی پر بھی اے نافہم چڑھ سکتا ہے تو
کیا مصنف کی کتاب دل بھی پڑھ سکتا ہے تو
یہ نہیں تو پھیر لے آنکھیں یہ جلوہ اور ہے
تیری دنیا اور ہے شاعر کی دنیا اور ہے
شعر کی تحلیل سے پہلے مری تقریر سن
خود زبان شعر سے آ شعر کی تفسیر سن
دل میں جب اشعار کی ہوتی ہے بارش بے شمار
نطق پر بوندیں ٹپک پڑتی ہیں کچھ بے اختیار
ڈھال لیتی ہے جنہیں شاعر کی ترکیب ادب
ڈھل کے گو وہ گوہر غلطاں کا پاتی ہیں لقب
اور ہوتی ہیں تجلی بخش تاج زر فشاں
پھر بھی وہ شاعر کی نظروں میں ہیں خالی سیپیاں
جن کے اسرار درخشاں روح کی محفل میں ہیں
سیپیاں ہیں نطق کی موجوں پہ موتی دل میں ہیں
شاعری کا خانماں ہے نطق کا لوٹا ہوا
اس کا شیشہ ہے زباں کی ٹھیس سے ٹوٹا ہوا
چھائے رہتے ہیں جو شاعر کے دل سرشار پر
ٹوٹ کر آتے ہیں وہ نغمے لب گفتار پر
جاگتے رہتے ہیں دل کی محفل خاموش میں
بند کر لیتے ہیں آنکھیں نطق کے آغوش میں
لوگ جن کی جاں گدازی سے ہیں دل پکڑے ہوئے
کھوکھلے نغمے ہیں وہ اوزان میں جکڑے ہوئے
شعر ہو جاتا ہے صرف اک جنبش لب سے نڈھال
سانس کی گرمی سے پڑ جاتا ہے اس شیشے میں بال
جام میں آتے ہی اڑ جاتی ہے شاعر کی شراب
ٹوٹ جاتا ہے کنارے آتے آتے یہ حباب
اس سے بڑھ کر اور ہو سکتی ہے کیا حیرت کی بات
شعر کو سمجھا اگر شاعر کی تو نے کائنات
شعر کیا جذب دروں کا ایک نقش ناتمام
مشتبہ سا اک اشارہ ایک مبہم سا کلام
کیف میں اک ''لغزش پا'' کلک گوہر بار کی
''اضطراری ایک جنبش سی'' لب گفتار کی
''ایک صوت خستہ و موہوم ساز ذوق کی''
''مرتعش سی ایک آواز'' انتہائے شوق کی
بے حقیقت نے کے اندر زمزمہ داؤد کا
عارض محدود پر اک عکس لا محدود کا
'شعر' کیا عقل و جنوں کی مشترک بزم جمال
'شعر' کیا ہے عشق و حکمت کا مقام اتصال
ظلمت ابہام میں پرچھائیں تفصیلات کی
پیچ و خم کھاتے بگولے میں چمک ذرات کی
جوئے قدرت کی روانی دشت مصنوعات میں
ٹوٹنا رنگیں ستارے کا اندھیری رات میں
شعر کیا ہے نیم بیداری میں بہنا موج کا
برگ گل پر نیند میں شبنم کے گرنے کی صدا
تر زبانی اور خاموشی کی مبہم گفتگو
لفظ و معنی میں توازن کی نہفتہ آرزو
بادلوں سے ماہ نو کی اک اچٹتی سی ضیا
جھانکنا قطرے کے روزن سے عروس بحر کا
مر کے بھی تو شاعری کا بھید پا سکتا نہیں
عقل میں یہ مسئلہ نازک ہے آ سکتا نہیں
تو سمجھتا تھا جو کہنا چاہیئے تھا کہہ گیا
پوچھ شاعر سے کہ وہ کیا کہہ سکا کیا رہ گیا
کون سمجھے شعر یہ کیسے ہیں اور کیسے نہیں
دل سمجھتا ہے کہ جیسے دل میں تھے ویسے نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.