نقش فریادی
وائے ناداریاں ہائے مجبوریاں
رسم و آداب کے بس میں ہے زندگی
غیر کی ہو کے پردیس جاتی ہو تم
حسرت و یاس و حرماں میں ڈوبی ہوئی
جیسے شاداب سی جھیل میں اک کنول
چڑھتے سورج کی تیزی سے کملائے ہے
یا بہ عہد بہاراں کسی اک سبب
جیسے پھولوں سے رنگت اتر جائے ہے
ہر سہیلی تبسم بہ لب ہے مگر
تم ہی مغموم ہو تم ہی خاموش ہو
جیسے گلچیں کا سارے چمن زار میں
اک کلی پر ہی کچھ ظلم ہو دوش ہو
خامشی صد زبان و بیاں کی طرح
اپنی دنیا کے دکھ درد کہتی ہوئی
پھر بھی اپنوں سے بے گانگی سی لیے
وقت کی دھار پر ناؤ بہتی ہوئی
وہ اداسی کہ حوروں کو افسوس ہو
ہوں فرشتے بھی ایسی فضا میں خجل
اور کس کس کو اے دورؔ الزام دوں
کچھ پسیجا تو ہوگا خدا کا بھی دل
- Veeraniyan
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.