بات اتنی سی تھی
ایک گل چیں کے ہاتھوں لگایا گیا باغ
اس کے ہی ہاتھوں سے ملتی ہوئی پرورش کے لیے
منتظر تھا مگر
اب وہ گل چیں تو گل چیں رہا ہی نہیں ہے کہ اس کو
کسی اور ہی کام سے دور جانا پڑا ہے
اسے رنگ و بو چھوڑ کر فائلوں کو اٹھانا پڑا ہے
اسے فکر اتنی ہے اس کے اگائے ہوئے پھول سوکھیں نہیں
ٹہنیوں سے الگ ہو کے ٹوٹیں نہیں
اور کسی بات پر اس سے روٹھیں نہیں
بات اتنی سی ہے
باغبانی کوئی نوکری تو نہیں
باغ سمجھے نہ سمجھے یہ گل چیں تو اس دکھ میں ڈوبا ہوا ہے کہ اس نے ابھی تک اسی کے لگائے ہوئے پھولوں کے رنگ دیکھے نہیں ہیں
وہ بازار سے عطر کی شیشیاں لا کے کمرے میں بیٹھا ہوا اس مہک کو بنانے کی کوشش میں ہے جس سے محروم ہے
بات اتنی سی ہے
وہ جو گل چیں تھا اب دوجے پیشہ میں ہے
اور وہ اپنے لیے کچھ نہیں کر رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.