نیا ادب
ہاں تو میں آپ سے کہتا تھا جناب
زندگی جبر کی پابند نہیں رہ سکتی
اور ندی اسی دھارے پہ نہیں بہہ سکتی
جس میں ماضی کی چتاؤں کے سوا
جس میں مرگھٹ کی ہواؤں کے سوا
اور تو کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں ہے شاید
آپ بیکار مری بات پہ جھنجھلاتے ہیں
کون کہتا ہے کہ ماضی کو برا کہتا ہوں
میں کہوں یہ کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
میں تو کہتا ہوں کہ تاریخ کے سینے سے شرارے لے کر
اپنی دنیا کے خس و خار جلا ہی دوں گا
زندگی کے سبھی اقدار سمجھ لیتا ہوں
میرؔ اور دردؔ کے اشعار سمجھ لیتا ہوں
میں نے اس شمع کی لو اور بڑھا ہی دی ہے
اپنے ماحول میں غالب نے جلایا تھا جسے
میں تو اقبال کی عظمت کی قسم کھاتا ہوں
آپ بیکار مری بات پہ جھنجھلاتے ہیں
بات اتنی ہے کہ میں ان کی ہی بنیادوں پر
اک نئے عہد کی تقدیر بنانے کے لئے
اک نئے وقت کی تصویر بنانے کے لئے
کچھ نئے ساز بجا لیتا ہوں
میں پجاری ہوں محبت کے اصولوں کا مگر
عشقیہ شعر مجھے یاد نہیں
جن میں سیٹھوں کو نوابوں کو مزا آتا ہے
جن کو پازیب کی جھنکار نگل جاتی ہے
مجھ کو مصنوعی محبت نہیں بھاتی لیکن
میں نے انسان کی پستی کا نشاں دیکھ لیا
کارخانوں کا دھواں دیکھ لیا
سیکڑوں سائے بھٹکتے ہوئے لرزاں ترساں
بال الجھے ہوئے ماتھے پہ لکیریں رقصاں
اپنے کاندھے پہ اٹھائے ہوئے تاریخ کا بوجھ
اپنے ہاتھوں سے چلاتے ہوئے تہذیب کی ناؤ
بھوک سے پاؤں تو اٹھتے نہیں پر اٹھتے ہیں
اور مالک کی تجوری ہے بھری جاتی ہے
ایک مالک کے ہزاروں ہیں غلام
جس طرح سیکڑوں بندوں کا فقط ایک خدا
اور اسی ایک ہی مالک کا وجود
اور اسی ایک خدا کا پیکر
ہاں تو میں آپ سے کہتا تھا جناب
لیجئے آپ تو منہ پھر چکے سو بھی گئے
- کتاب : Aina Khane (Pg. 78)
- Author : Akhtar payami
- مطبع : Zain Publications (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.