نیا حکم نامہ
کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے
کدھر جا رہی ہیں
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا
چلیں گی اب تو کیا رفتار ہوگی
ہواؤں کو یہ اجازت نہیں ہے
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سبھی جنتے ہیں
کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کر لیں اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا پھر بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے یہ ان کا ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں بس اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول تو یک رنگیں ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگیں نہیں ہوتے
کبھی ہو ہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنھوں نے باغ یک رنگیں بنانا چاہے تھے
ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہو گئے ہیں تو
کتنے پریشاں ہیں کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں ہتھکڑی میں
قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہریں روکی جاتی ہیں
تو دریا کتنا بھی ہو پر سکوں بیتاب ہوتا ہے
اور اس بیتابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.