نیا حسن
کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں ہے دنیا
کتنا سرشار ہے ذوق چمن آرائی آج
اس سلیقے سے سجائی گئی بزم گیتی
تو بھی دیوار اجنتا سے اتر آئی آج
رونمائی کی یہ ساعت یہ تہی دستیٔ شوق
نہ چرا سکتا ہوں آنکھیں نہ ملا سکتا ہوں
پیار سوغات، وفا نذر، محبت تحفہ
یہی دولت ترے قدموں پہ لٹا سکتا ہوں
کب سے تخئیل میں لرزاں تھا یہ نازک پیکر
کب سے خوابوں میں مچلتی تھی جوانی تیری
میرے افسانے کا عنوان بنی جاتی ہے
ڈھل کے سانچے میں حقیقت کے کہانی تیری
مرحلے جھیل کے نکھرا ہے مذاق تخلیق
سعئ پیہم نے دیے ہیں یہ خد و خال تجھے
زندگی چلتی رہی کانٹوں پہ، انگاروں پر
جب ملی اتنی حسیں، اتنی سبک چال تجھے
تیرے قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دختر شہر ہے، تہذیب کا شہکار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک، اب نہ ہٹیں گی نظریں
حسن کا میرے لیے آخری معیار ہے تو
یہ ترا پیکر سیمیں، یہ گلابی ساری
دست محنت نے شفق بن کے اڑھا دی تجھ کو
جس سے محروم ہے فطرت کا جمال رنگیں
تربیت نے وہ لطافت بھی سکھا دی تجھ کو
آگہی نے تری باتوں میں کھلائیں کلیاں
علم نے شکریں لہجے میں نچوڑے انگور
دل ربائی کا یہ انداز کسے آتا تھا
تو ہے جس سانس میں نزدیک اسی سانس میں دور
یہ لطافت، یہ نزاکت، یہ حیا، یہ شوخی
سو دیے جلتے ہیں امڈی ہوئی ظلمت کے خلاف
لب شاداب پہ چھلکی ہوئی گلنار ہنسی
اک بغاوت ہے یہ آئین جراحت کے خلاف
حوصلے جاگ اٹھے سوز یقیں جاگ اٹھا
نگہ ناز کے بے نام اشاروں کو سلام
تو جہاں رہتی ہے اس ارض حسیں پر سجدہ
جن میں تو ملتی ہے ان راہ گزاروں کو سلام
آ قریب آ کہ یہ جوڑا میں پریشاں کر دوں
تشنہ کامی کو گھٹاؤں کا پیام آ جائے
جس کے ماتھے سے ابھرتی ہیں ہزاروں صبحیں
مری دنیا میں بھی ایسی کوئی شام آ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.