نیا خون
خاک پر گر کے لہو کون و مکاں تک پہنچا
روشنی بن کے مہ و کاہکشاں تک پہنچا
عرش اعظم کے پرے لوح و قلم سے آگے
کربلا سے یہ لہو جانے کہاں تک پہنچا
یہ لہو بن کے جلا راہ وفا میں قندیل
کارواں مرحلۂ عزم جواں تک پہنچا
تازگی بن کے رگ لالہ و گل میں دوڑا
ابر بن بن کے بیابان تپاں تک پہنچا
یہ لہو چھیڑ گیا سلسلۂ دار و رسن
یہ لہو آگ کی صورت رگ جاں تک پہنچا
جل گئی شمع اندھیروں کا جگر چاک ہوا
یہ لہو وقت کی لہروں پہ جہاں تک پہنچا
انقلابات کی تاریخ کا عنواں بن کر
یہ لہو قتل گہہ عصر رواں تک پہنچا
چارہ گر آئے بہت کوئی مسیحا نہ ہوا
سینۂ ارض کے زخموں کا مداوا نہ ہوا
کربلا آج بھی برپا ہے بہ انداز دگر
دشت میں رقص شہیداں کا تماشہ نہ ہوا
بند ہے آج بھی کتنوں کے لئے نہر فرات
معرکہ کوئی بظاہر لب دریا نہ ہوا
زینبیں اپنے گھروں میں ہیں ردا سے محروم
دشت و کہسار میں خیمہ کہیں برپا نہ ہوا
رات پیتی ہی رہی چاند ستاروں کا لہو
وقت کی تیرہ فضاؤں میں اجالا نہ ہوا
کون سا وقت ہے پھر روح کی بیداری کا
زخم احساس اگر آج بھی تازا نہ ہوا
دل کو بیدار کریں روح کو بے باک کریں
عصر حاضر کے یزیدوں کی قبا چاک کریں
اشک بے سود رہے کشت تمنا کے لیے
خون دل خون جگر سے اسے نمناک کریں
موج خوں غازۂ رخسار امم ہوتی ہے
آؤ اب وقت کی آواز کا ادراک کریں
زیر محراب نہیں ہوتی محبت کی نماز
سایۂ دار میں اک سجدۂ بے باک کریں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.