نیا سال
پھر نیا سال دبے پاؤں چلا آیا ہے
اور مٹتے ہوئے مدھم سے نقوش
دور ماضی کی خلاؤں میں نظر آتے ہیں
جیسے چھوڑی ہوئی منزل کا نشاں
جیسے کچھ دور سے آتی ہوئی آواز جرس
کون سہمے ہوئے مایوس دیوں کو دیکھے
پھر بھی یہ مجھ کو خیال آتا ہے
کتنی نوخیز امیدوں کو سہارے نہ ملے
کتنی ڈوبی ہوئی کشتی کو کنارے نہ ملے
زلف لہرائی پہ ساون کی گھٹا بن نہ سکی
صبح ہنستی رہی بجھتے رہے کتنے چہرے
چوڑیاں ٹوٹ گئیں مانگ کے سیندور اجڑے
گود ویران ہوئی
نغمے تخلیق ہوئے ہونٹ سلے
کتنے فن پاروں کے انبار لگے
شاہراہوں پہ جلانے کے لئے
آشیانے کا تصور ہی ابھی آیا تھا
بجلیاں کوند گئیں
ہیروشیما چیخ اٹھا
کتنا پر ہول سماں
کتنی بھیانک تاریخ
یہ مہ و سال کے پھیلے ہوئے جال
پھر نیا سال دبے پاؤں چلا آیا ہے
روز و شب جیسے اندھیرے میں لٹیروں کے گروہ
اپنی تاریک کمیں گاہوں میں چھپ کر بیٹھیں
اور داماندہ سارا ہی کوئی
اجنبی راہوں سے ڈرتا ہوا گھبرایا ہوا
اپنی کوئی ہوئی منزل کی طرف جاتا ہو
اور لٹیرے اسے تنہا پا کر
اس کے سینے کا لہو لے لیں امیدوں کے دیے بجھ جائیں
کون لیکن دل انساں کی تپش چھین سکے
پھر نیا سال دبے پاؤں چلا آیا ہے
کتنی باریک ہے یہ صبح کی پہلی کرن
کون جانے کہ نئی دام بھی کیا لائے گی
کان میں آج بھی مانوس صدا آتی ہے
وہی ڈالر کا طلسم
وہی تہذیب و تمدن کے پرانے دعوے
وہی پسماندہ ممالک کی ترقی کا فریب
وہی تاریخ سیاست کے پرانے شاطر
ایٹمی جنگ کا اعلان کیا کرتے ہیں
کون لیکن دل انساں کی تپش چھین سکے
ارتقا آہن و فولاد سے کس طرح رکے
ٹوٹ جائیں گے مہ و سال کے پھیلے ہوئے جال
پھر نیا سال دبے پاؤں چلا آتا ہے
جاؤ تاریک مکانوں میں چراغاں کر دو
آج زنجیر کی اک اور کڑی ٹوٹ گئی
آج دنیا کے عوام
اپنے سینے سے لگائے ہوئے اپنی تاریخ
اپنے ہاتھوں میں نئے عہد کا فرمان لئے
اک نئی راہ پہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
روز و شب جیسے اندھیرے میں لٹیروں کے گروہ
ہاتھ باندھے ہوئے قدموں پہ جبینیں رکھ دیں
پھر نیا سال دبے پاؤں چلا آیا ہے
جاؤ تاریک مکانوں میں چراغاں کر دو
- کتاب : Aina Khane (Pg. 82)
- Author : Akhtar payami
- مطبع : Zain Publications (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.