نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو
فریب جنت فردا کے جال ٹوٹ گئے
حیات اپنی امیدوں پہ شرمسار سی ہے
چمن میں جشن ورود بہار ہو بھی چکا
مگر نگاہ گل و لالہ سوگوار سی ہے
فضا میں گرم بگولوں کا رقص جاری ہے
افق پہ خون کی مینا چھلک رہی ہے ابھی
کہاں کا مہر منور کہاں کی تنویریں
کہ بام و در پہ سیاہی جھلک رہی ہے ابھی
فضائیں سوچ رہی ہیں کہ ابن آدم نے
خرد گنوا کے جنوں آزما کے کیا پایا
وہی شکست تمنا وہی غم ایام
نگار زیست نے سب کچھ لٹا کے کیا پایا
بھٹک کے رہ گئیں نظریں خلا کی وسعت میں
حریم شاہد رعنا کا کچھ پتہ نہ ملا
طویل راہ گزر ختم ہو گئی لیکن
ہنوز اپنی مسافت کا منتہا نہ ملا
سفر نصیب رفیقو قدم بڑھائے چلو
پرانے راہنما لوٹ کر نہ دیکھیں گے
طلوع صبح سے تاروں کی موت ہوتی ہے
شبوں کے راج دلارے ادھر نہ دیکھیں گے
- کتاب : Kulliyat-e-Sahir (Pg. 127)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.