نظم بنے
ہجر کے تپتے ہوئے صحرا میں
کوئی بیمار شفایاب نہ ہو پائے اسے
آخری ہچکی میں دیدار صنم ہو تو کہیں نظم بنے
اجڑے آنگن کے احاطے میں تیری آمد ہو
اور بہاروں کے وجودوں پہ نئے رنگ کھلیں
دور بے نور سی آنکھوں پہ کوئی کرتہ لگے
نظم بنے
رات وحشت سے بھری
جس میں گڑے ہیں ہر سو
ایک تنہائی کے پنجوں کے عذاب
کان بنجر تھے مگر
دور کہیں
بانسری سے نیا اک ساز ابھرتے ہی ہنسے
نظم بنے
سارے رنگ اپنی یہ رنگینیاں کھو دیں اور پھر
تیری اک چشم کرم پڑتے ہی جلوے بکھریں
آسمانوں سے افق تاب دھنک جوں اترے
نظم بنے
سچے جذبوں سے بھری کوئی حسیں شہزادی
وار بیٹھے کسی جھوٹے پہ وفائیں اپنی
پتھر آنکھوں سے جوں ہی اشک گرے
نظم بنے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.