نظم
اک اشارے سے دیوار دل کی دراڑوں میں تو نے جو روشن کیے تھے چراغ
ان کے بجھنے کا دکھ ایک جیسا ہے دونوں طرف
آج بھی یاد ہے دور سے تیری آواز کانوں میں پڑتی تو کچھ بھی سنائی نہ دیتا
کاش تو اپنے زنداں سے مجھ کو رہائی نہ دیتا
کون بیتے ہوئے خواب پر خاک ڈالے
کون اتنی غلط فہمیوں کا ازالہ کرے
کس سے پوچھیں وبا اور وفا میں بنائے ہوئے بے تکلف تعلق
کی عمریں اگر مختصر ہیں تو کیوں ہیں
کون بھولے اماوس کی راتوں سی زلفوں کی رعنائیاں
کون دل سے حیا دار آنکھوں کی یادیں مٹا دے
دوست کس کو مفر ہے یہاں بے یقینی کے سیل بلا سے
دوست کشتی سنبھالی نہیں جا رہی اب ترے نا خدا سے
میں نے تیری رفاقت میں جتنی گزاری مرے ساتھ تیرے دلاسے کی برسات اور تیرے بولے ہوئے لفظ کی ہر تسلی ہمیشہ رہی ہے
میں نے تاریک رہداریوں میں کبھی تیری آنکھوں کی کرنوں کی بے فیضگی کا گلہ کر لیا
مونس جان ایسا بھی کیا کر لیا
غم تو تب تھا کہ میں تیرے جانے کا غم بھی نہ کرتا
میرے دن میری راتیں ترے سامنے ہیں
بتا ہاتھ کب تھامنے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.