نظم
جب وہ اس دنیا کے شور اور خاموشی سے
قطع تعلق ہو کے انگلش میں غصہ کرتی ہے
میں تو ڈر جاتا ہوں لیکن
کمرے کی دیواریں ہنسنے لگتی ہیں
وہ اک ایسی آگ ہے جس کو صرف دہکنے سے مطلب ہے
وہ اک ایسا پھول ہے جس پر اپنی خوشبو بوجھ بنی ہے
وہ اک ایسا خواب ہے جس کو دیکھنے والا خود مشکل میں پڑ سکتا ہے
اس کو چھونے کی خواہش تو ٹھیک ہے لیکن
پانی کون پکڑ سکتا ہے
وہ رنگوں سے واقف ہے
بلکہ ہر اک رنگ کے شجرے تک سے واقف ہے
اس کو علم ہے کن خوابوں سے آنکھیں نیلی پڑ جاتی ہیں
ہم نے جن کو نفرت سے منسوب کیا
وہ ان پیلے پھولوں کی عزت کرتی ہے
کبھی کبھی وہ اپنے ہاتھ میں پنسل لے کر ایسی سطریں کھینچتی ہے
سب کچھ سیدھا ہو جاتا ہے
وہ چاہے تو ہر اک چیز کو اس کے اصل میں لا سکتی ہے
صرف اسی کے ہاتھوں سے دنیا ترتیب میں آ سکتی ہے
ہر پتھر اس پاؤں سے ٹکرانے کی خواہش میں زندہ ہے
لیکن یہ تو اسی ادھورے پن کا جہاں ہے
ہر پنجرے میں ایسے قیدی کب ہوتے ہیں
ہر کپڑے کی قسمت میں وہ جسم کہاں ہے
میری بے مقصد باتوں سے تنگ بھی آ جاتی ہے تو
محسوس نہیں ہونے دیتی
لیکن اپنے ہونے سے اکتا جاتی ہے
اس کو وقت کی پابندی سے کیا مطلب ہے
وہ تو بند گھڑی بھی ہاتھ میں باندھ کے کالج آ جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.