ابتدا سے کبھی نظم ہوتی نہیں
اور کبھی ابتدا سے بھی پہلے کہیں
نظم ہونے کے آثار ملتے ہیں
جیسے کہیں قبل از زندگی
زندگی کے تصور سے پہلے
مگر زندگی سے بھی بہتر
بر آمد ہوئی کوئی تہذیب
تہذیب ملتی تو ہے
پر کبھی ابتدا اس کی ملتی نہیں
ابتدا سے بھی پہلے
تلک ذہن جاتا نہیں
اور تہذیب سے لینا دینا بھی کیا
نظم کی ابتدا نون سے
نون لے گی نہیں
یہ حروف تہجی کا اک رکن ہے
جیم سے جسم
چے سے چمک
ڈال سے ڈالڈا
سین سے سین اوپر کے تین
واؤ سے وہم
جو کس قدر اہم ہے
نظم کے وسط میں
جو کہ ہوتا نہیں
دائرہ تو نہیں
ٹرائی اینگل نہیں
ہیگزا گونل نہیں
خط نہیں ویو ہے
یعنی آواز جیسی کوئی چیز ہے
میگنٹ کی طرح کوئی شے ہے
ہوا سا کوئی معاملہ ہے
کوئی کرنٹ ہے
جس کے لگنے سے بھی
نظم مرتی نہیں
نظم کی انتہا کیوں کہ ہوتی نہیں
ختم ہو جاتی ہے بیچ میں ہی کہیں
جس طرح کچھ جواں مرگ
یا انتہا پر پہنچ کر بھی تشنہ ہی رہتی ہے
جیسے
وہ سب زندہ لاشیں کہ جو موت کی ڈیٹ کے بعد بھی جی رہی ہیں
دوا اپنی مدت مکمل کیے ایک بیمار گاہک کی رہ دیکھتی ہے
یہ پانی کی لالچ بہت بڑھ گئی ہے جو ٹینکی کو بھر کر لبالب بقایا دیواروں کی بنیاد میں چھوڑ دیتے ہیں
بجلی کے آنے کا وقت آ بھی جائے مگر ان کی اپنی گھڑی ہے
نجی دفتروں کے ملازم کی چھٹی کے اوقات ہوتے ہیں لیکن اسے دیر تک بیٹھنے اور بٹھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.