نظم
خزانوں کو تم ڈھونڈنے پر مصر ہو
ٹپکتا ہے خوں ناخنوں سے اور آنکھوں سے
کھوئی ہوئی نیند کی تلخ سرخی
یہ کھیتوں کی جیتی جڑیں کاٹتے پھاوڑے اور کدالیں
میں خود موت کے ہاتھ جس کے تمسخر
سے تم بے خبر ہو
ہتھیلی پر عمر اور دل کی لکیروں میں اٹکے
یہ مدھم سے ذرے کہ جن میں ابھی تک تمہارے
اب وجد کی مٹی
کی اک جھلملاتی کرن کتنے زرخیز وعدوں
کے دن رات تجتی ہوئی اس گھڑی
قید میں ہے
تمہاری طرح وہ خزانوں پہ بیٹھے ہوئے سانپ
تازہ لہو پی کے پھر سے کسی کھوئے نشے
کی جنت میں گھلنے
خیالی عذابوں میں جلنے کی حیرت سے گویا
سراپا زر و سیم کی یخ سلاخیں اور آنکھیں
بلور اور ہیرے
خزانے تو سب خاک میں مل چکے ہیں
ہوا اور ہوس کے پرانے ٹھکانوں پہ اب نو بہ نو
پھول حسرت کے دیکھو
یہ مٹی کہ چپ ہے بس اس کے دفینے
برس کے برس چار دن پھول پتوں کی لیلا
یہ مٹی تمہیں ڈھونڈتی ہے
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 218)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.