نظم
نہ پوچھو کس جہان رنگ و بو سے ہو کے آئے ہیں
جہاں دل سے متاع بے بہا ہم کھو کے آئے ہیں
قیامت تھا نظارہ اس گلستان محبت کا
نم رخسار گل سے چشم تر ہم دھو کے آئے ہیں
خدا اس خطۂ گلزار کو پھولا پھلا رکھے
جہاں ہم نو بہ نو تخم محبت بو کے آئے ہیں
محبت کرنے والوں کی محبت سے بہت کم تھا
دم رخصت ہم ان کے آگے جتنا رو کے آئے ہیں
ہماری خواب کی رنگینیوں کا پوچھنا کیا تھا
محبت کی فضا میں فرش گل پر سو کے آئے ہیں
علاء الدین سے مل کر ادھر لوٹے ہیں ہم جب سے
سب اہل دل یہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ ہو کے آئے ہیں
ضیائیؔ اور نیرؔ کے سوا اور نام بھی ہوں گے
محبت کے صحیفوں میں فقط ان دو کے آئے ہیں
ٹھہرتے ہی ٹھہرتے یہ دل بیتاب ٹھہرے گا
ابھی کے دن ہوئے جب ہم کراچی ہو کے آئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.