نظم
ٹپک رہا ہے لہو سر پہ آسمانوں کا
جبیں پہ وقت کے پنجوں کی کچھ خراشیں ہیں
جمی ہوئی ہے لبوں پر سکوت کی پپڑی
دھدھک رہی ہے عجب سی اک آگ آنکھوں میں
دبے ہیں سینۂ جاں میں اجاڑ سناٹے
دیار دل میں سسکتے ہیں بے صدا رستے
جھکے ہوئے میرے شانوں پہ بوجھ ہے غم کا
میں ڈھو رہا ہوں کمر پہ ستم کے مشکیزے
شکم کی آگ بھڑکتی ہے برق کی مانند
رگوں میں خون کی گردش ہے یا قیامت ہے
ہوا نے کھول دئے بند پیرہن سارے
پھسل کے گر گئی زانو سے عشق کی چادر
وہ جس نصیب نے بخشی تھی شہرتوں کی اماں
اسی نصیب کو گھٹنوں پہ لے کے بیٹھا ہوں
میں اپنے پاؤں کے چھالوں کو کس طرح دیکھوں
سکت نہیں ہے مجھے بیڑیاں اٹھانے کی
کوئی چراغ تعلق بھی اب نہیں باقی
میں خال و خد کے اندھیروں میں قید ہوں کب سے
کھڑی ہے دور کہیں جا کے میری بینائی
اتر رہا ہے بدن پر عذاب تنہائی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.