واہموں کی کوکھ سے پیدا ہوئے
کچھ عقیدوں اور پرانے مذہبوں کے سلسلے
صبح دم سورج کہاں سے آئے ہے
شام ہوتے ہی کہاں چھپ جائے ہے
اور شب پر آئے ہے کیسے شباب
آسماں میں کیسے آویزاں ہے قرص ماہتاب
تیرہ راتوں میں کہاں کھو جائے ہے
کس طرح آتی ہے برکھا کی بہار
کس طرح گرتے ہیں گالے برف کے
آدمی انجان تھا حیران تھا
اور یہ شرمیلے راز
جو ازل سے ہیں دلوں میں جاگزیں
کس طرح پیدا ہوئے
راز بے خبری سرور
ان سے مذہب کا ہوا آہستہ آہستہ ظہور
چار سو تھی گمرہی ہی گمرہی
دل نشیں سنگیت میں لپٹی رہی کم آگہی
کس نے سوچا تھا خدا کا ہے وجود
والٹیر نے کہا
اس زمیں پر پہلا شاطر پہلے احمق سے ملا تو
معرفت پیدا ہوئی
بند ہو کر رہ گئی تھی پھر دلوں کی بھی زباں
رک گیا تھا آرزو کا کارواں
عقل کے وہ جھلملاتے سلسلے
اب کہیں بھی دہر میں شاید نہ تھے
درد دل پیروں تلے روندا گیا
گرم تھی اتنی زمانے کی ہوا
روح نے پھر روح کو حیراں کیا
آتشیں جذبات بھڑکائے گئے
آج تک اوڑھے ہوئے ہیں ہم ضمیروں کے کفن
ناچتا ہے سر پہ مذہب کا جنوں
خون آلودہ ہے ہر اک پیرہن
سلسلہ در سلسلہ تاریکیاں بڑھتی گئیں
روشنی افکار کی مدھم ہوئی
وہ جو اک حسرت جواں تھی ایک دل کش سی روانی کی طرح
آخرش تھک ہار کر سو ہی گئی
اب ضرورت ہے زمانے کی یہی
گنگنائے کچھ فضا میں ایک دلبر آگہی
ہاں اگر تو ہے تو اے رب کریم
سوچ ہو دل میں مقیم
پھر نہ مذہب ذہن پر چھائے کبھی
کھوٹا سکہ پھر نہ چل پائے کبھی
ہو یقیناً رونما
جھنجھنائے آگہی
آدمیت کا نرالا سلسلہ
سوچ کی بالیدگی سے خوش ادا ہو زندگی
خوش نما ہو زندگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.