رات کی شاخ پہ کھلتے ہوئے تاروں کے گلاب
نکہت و نور کی منزل کا پتہ دیتے ہیں
ساز بیتاب ہے مضراب کی جنبش کے لئے
گیت رقاصۂ ہستی کو صدا دیتے ہیں
جس کی آواز میں فردا کی کھنک شامل ہے
اک ابھرتے ہوئے سورج کی چمک شامل ہے
جس کی تابش سے شعاعوں کی پھواریں پھوٹیں
جس سے پر ہول اندھیروں کا جگر کانپ اٹھے
پھول کی طرح سبک تیغ کی مانند گراں
جس کے احساس سے ظلمت کی سپر کانپ اٹھے
جس کے سائے میں امیدوں کو جواں ہونا ہے
رفعت عشق کو سرمایۂ جاں ہونا ہے
زندگی ٹھوس حقیقت ہے کوئی خواب نہیں
پھر بھی اک عمر بنی رہتی ہے دیوانے کا خواب
ان حقائق کو بھلا کون بھلا سکتا ہے
سخت حالات کے تپتے ہوئے ویرانے کا خواب
بستر مخمل و سنجاب بھی یاد آتا ہے
غم و آلام کا زہراب بھی یاد آتا ہے
یہ مہکتے ہوئے گجرے یہ لہکتے ہوئے پھول
ان پہ مستقبل زریں کا گماں ہے کہ نہیں
ایک احساس بشر کے لئے خوشبوئے وصال
لاکھ نازک ہو مگر بار گراں ہے کہ نہیں
جذبۂ سوز دروں آج گرفتار ہوا
ایک شاعر کا جنوں آج گرفتار ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.