نیا سال
رات کی اڑتی ہوئی راکھ سے بوجھل ہے نسیم
یوں عصا ٹیک کے چلتی ہے کہ رحم آتا ہے
سانس لیتی ہے درختوں کا سہارا لے کر
اور جب اس کے لبادے سے لپٹ کر کوئی
پتہ گرتا ہے تو پتھر سا لڑھک جاتا ہے
شاخیں ہاتھوں میں لیے کتنی ادھوری کلیاں
مانگتی ہیں فقط اک نرم سی جنبش کی دعا
ایسا چپ چاپ ہے سنولائی ہوئی صبح میں شہر
جیسے معبد کسی مرجھائے ہوئے مذہب کا
سر پہ اپنی ہی شکستوں کو اٹھائے ہوئے لوگ
اک دوراہے پہ گروہوں میں کھڑے ہیں تنہا
یک بیک فاصلے تانبے کی طرح بجنے لگے
قدم اٹھتے ہیں تو ذرے بھی صدا دینے لگے
درد کے پیرہن چاک سے جھانکو تو ذرا
مردہ سورج پہ لٹکتے ہوئے میلے بادل
کسی طوفان کی آمد کا پتا دیتے ہیں!
- کتاب : kulliyat-e-ahmad nadiim qaasmii (Pg. 243)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.