ایک دن شام کو بازار میں چلتے پھرتے
سنسناہٹ سی ہوئی سارے بدن میں میرے
سانس بھاری ہوا سینے میں اٹک کر آیا
کچھ قدم اور چلا ہوں گا کہ چکر آیا
پھر مجھے یاد نہیں کیسے ہوائیں بدلیں
وقت بازار سماں اور فضائیں بدلیں
جانے کیوں دیکھ کے بازار کو ڈر آنے لگا
بے ضرر چیزوں سے بھی خوف ضرر آنے لگا
جانے کیا آنکھ کو بن دیکھے نظر آتا تھا
ایک ایک عضو بدن خوف سے تھراتا تھا
جسم قابو میں نہ تھا سینے میں دل اٹکا تھا
پاؤں رکھتا تھا کہیں اور کہیں پڑتا تھا
حبس محسوس ہوا ٹھنڈا پسینہ ٹپکا
چڑھ گیا ذہن پہ دھند اور دھویں کا بھپکا
چلنا کیسا کہ گھسٹتا ہوا گھر میں آیا
مجھ سے دو چار قدم آگے تھا میرا سایہ
کیسا سایہ کہ ہر اک لمحہ بدلتا جائے
دم بدم ایک نئی شکل میں ڈھلتا جائے
کبھی سمٹے کبھی پھیلے کبھی سہمے کانپے
کبھی رینگے کبھی دوڑے کبھی رک کر ہانپے
مجھ کو یوں لگتا تھا میں جان رہا ہوں خود کو
اس کی ہر شکل میں پہچان رہا ہوں خود کو
ڈرتے ڈرتے جو قدم اور بڑھائے میں نے
وحشت روح کے ساماں نئے پائے میں نے
بے سبب ہر در و دیوار کو برہم دیکھا
بلب میں چشم غضب ناک کا عالم دیکھا
کیسی آواز چلی آتی ہے گھر گھر گھر گھر
آنکھ اٹھاؤں تو بلا ناچ رہی ہے سر پر
ہاتھ کرسی نے اچانک مری جانب پھیلائے
میں جو پلٹا ادھر میز نے بھی پاؤں بڑھائے
خودبخود جوتوں میں حرکت ہوئی موزے بھاگے
کلبلاتے ہوئے کیڑے تھے کشن کے تاگے
سرسراہٹ سی یکایک ہوئی پردے کے قریب
سانپ سا رینگ رہا تھا مرے تکیے کے قریب
بند گھڑیال میں بجنے لگے اک دم بارہ
قہقہہ مجھ پہ ہواؤں نے اچانک مارا
بیٹھنا چاہا تو صوفوں نے دبا کر بھینچا
بھاگنا چاہا تو پردوں نے پکڑ کر کھینچا
پھر ذرا دیر میں جیسے کہ یہ سب کچھ بھی نہ تھا
دل کو وحشت تھی پہ وحشت کا سبب کچھ بھی نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.