نظام زیست کسی تال کا نہیں پانی
جو سنگ بستہ سا ٹھہرا ہوا مقید ہے
ہر آنکھ دیکھ سکے جس کی اتنی بس حد ہے
کرے نہ کچھ بھی جو پیدا دلوں میں حیرانی
نظام زیست کسی تال کا نہیں پانی
نظام زیست ہے لیکن وہ بے کراں پانی
پہاڑیوں سے جو نکلا ہو بن کے مستانہ
کسی کی آرزوئے وصل کا ہو دیوانہ
یہاں سے دور بہت دور کوہساروں میں
دراز راہوں میں دشوار رہ گزاروں میں
وہیں جہاں یہ سلیں برف کی پگھلتی ہیں
جہاں ابلتے ہیں چشمے ہوائیں چلتی ہیں
وہیں سے تو یہ ندی نالے بہتے آتے ہیں
جو پتھروں کو چٹانوں کو چیر جاتے ہیں
چٹانیں کاٹ کے جاتے ہیں یہ جدھر جائیں
نکل کے کوہ سے میداں سے یہ گزر جائیں
یہ ہم کنار ہوئے اور بڑھ گیا پانی
ہر ایک سمت کو پھر کھیلتا چلا پانی
یہ جنگلوں میں گزرتا تو گھاٹیوں میں کبھی
یہ پھیلتا کبھی میداں میں وادیوں میں کبھی
ہوئی ہے جس سے بشر کی نظر کو حیرانی
نظام زیست ہے گویا وہ بے کراں پانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.