نومبر جب بھی آتا ہے
اداسی ساتھ لاتا ہے
کسی کاغذ کے ٹکڑے پہ
اگر کچھ لکھ کے میں چھوڑوں
تو وہ مرجھا ہی جاتا ہے
دریچہ جب بھی کھلتا ہے
نگل جاتا ہے خوابوں کو
سنائی پھر نہیں دیتا
کوئی نغمہ بہاروں کا
دکھائی پھر نہیں پڑتا
کوئی چہرہ ہواؤں کا
ادھر کی ریشمی شامیں
مجھے آواز دیتی ہیں
کہ اب تم لوٹ بھی آؤ
مجھے آباد ہی کر دو
چھپا کر میری آنکھوں سے
اڑا کر ساتھ لے جاؤ
کوئی ایسی جگہ مجھ کو
جہاں پر اب دسمبر کی
وہ ہلکی دھوپ آتی ہو
جہاں پر سیکڑوں افراد
میرے ہم نوا بھی ہوں
جہاں پر دھوپ ڈھلتے ہی
مری پرچھائی میرا ساتھ نہ چھوڑے
مجھے معلوم ہے یہ سب
نہیں ممکن ہے جیتے جی
جہاں دل میں مرے
خواہش اٹھاتی ہے کبھی اب سر
میں اس کو روک دیتا ہوں
نومبر جاتے جاتے پھر
کسی کاغذ کے ٹکڑے پر
میں اپنے نام کا اے لکھ کے یوںہی چھوڑ دیتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.