دسمبر آ گیا جاناں
وہی کاغذ کا ٹکڑا
اب بھی میرے ہاتھ میں ہی ہے
جو پل پل مجھ کو
اس ویران سناٹے کی جانب کھینچ لیتا ہے
ابھی بھی دھوپ میں باہر نکلنے
پر عجب سی کوفت ہوتی ہے
میں اپنے نام کے اے سے
بھی آگے آ چکا ہوں اب
اور اب یہ سوچتا ہوں
کیا کروں گا ان کتابوں کا
جو تم نے چھوڑ دی تھیں
بیچ میں ہی مجھ کو پڑھنے کو
بڑا مایوس ہے نیتشے
بڑا حیران ہے کامو
تمہارے لوٹ جانے سے
بہت ویران اپنا کیمپس ہے
یار دیکھو تم
وہاں کے پھول کیا اب بھی
کھلے اور کھل رہے ہوں گے
وہاں کی شام کیا اب بھی
تمہاری منتظر ہوگی
چلو یہ سب یہیں چھوڑو
مجھے اب یہ بتاؤ تم
کہ کافی اب بھی ویسے ہی
بنا شکر کے پیتی ہو
کہ اب بھی بھول جاتی ہو
دوپٹہ ساتھ لینا تم
کہ اب بھی مسکراتی ہو
فرازؔ اور فیضؔ کو پڑھ کر
کہ اب بھی اپنے کمرے میں
پڑے اس آخری خط کو
اداسی سے بھری آنکھوں سے
اب بھی پڑھ رہی ہوں گی
کہ اب بھی
خیر چھوڑو جانے دو بس ہو گیا جاناں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.