رات تاریک تھی اک کالے سمندر کی طرح
اجنبی دیس تھا تنہائی تھی
جگمگاتے ہوئے بازاروں کی بے کیف فضا
اور بوجھل سا کئے دیتی تھی جسم و جاں کو
شہر کی حد سے پرے
دور تک پھیلے ہوئے ریت کی سفاکی تھی
آسمان دھول میں لپٹا ہو تا حد نظر
کوئی سایہ نہ سراب
کار میں بجتا ہوا گیت بھی الفاظ کی تکرار تھا
بے روح تھی لے
پھر اچانک مجھے مانوس سے اک لمس نے بیدار کیا
تھپکیاں دے کے مرے شانے پر
پیار سے سرگوشی کی
میں ترے ساتھ یہاں تک آیا
میں ابھی چوم کے آیا ہوں تری خاک وطن
تیری گلیاں ترے مانوس در و بام تیرا گھر آنگن
تیرے ماں باپ کے آزردہ سے مشفق چہرے
منتظر آنکھوں کی خاموشی کو چوم آیا ہوں
تیرے آنگن کی چنبیلی کی دعا لایا ہوں
یاد ہے یاد ہے
کوئی کہتا ہی رہا
وہ ستمبر کی خنک رات تھی میں تھا تم تھیں
ریڈیو پر کوئی بجتی ہوئی اسپینش دھن
دور پیپل کے گھنے جنگل میں
ہم کو مدہوش کئے دیتی تھی
یاد ہے
تجھ کو لڑکپن میں کبھی
آم کے بور کی بیلے کی چنبیلی کی مہک ساتھ لئے
کچے آنگن میں جھکے نیم کی شاخوں میں ہوا بہتی تھی
اور ہم دونوں بہت دیر تلک جاگتے تھے
راز کی باتیں کیا کرتے تھے
کوئی کہتا ہی رہا
یاد کرو یاد کرو
دیپ سے دیپ جلے یادوں کے
اور کچھ ایسا ہوا
یک بہ یک چلنے لگی باد صبا نجد کے صحراؤں میں
اور اک نور کا دریا سا نظر آنے لگا صحرا میں
کار کے بند دریچے سے اتر آیا مری گود میں چاند
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.