نقوش فکر و عمل
دلچسپ معلومات
حضرت احسان دانش کی نظم’’روداد عمل‘‘ کی ردیف و قافیہ میں)
دریائے طبیعت کو رواں ہم نے کیا ہے
در ہاٸے معانی کو عیاں ہم نے کیا ہے
یوں حال دل زار بیاں ہم نے کیا ہے
خود ان کو بھی اب اشک فشاں ہم نے کیا ہے
ان میں بھی نظر کچھ کی حقائق سے ہے محروم
یہ تجزیۂ دیدہ وراں ہم نے کیا ہے
کم ہیں بہت انسانیت و خلق کی قدریں
یہ تجربۂ اہل جہاں ہم نے کیا ہے
ہے بات ہماری ہی کہ رندوں کو بہر طور
زیر اثر پیر مغاں ہم نے کیا ہے
کیا خوب ابھر آئے نقوش گل و لالہ
آنکھوں کو جو خوں نابہ فشاں ہم نے کیا ہے
اک موڑ دیا ہے رخ تاریخ کو جس نے
کردار وہ عالم پہ عیاں ہم نے کیا ہے
ماحول کے ظلمت کدۂ تیرہ شبی کو
اک جلوہ گہ کاہکشاں ہم نے کیا ہے
گویا ہیں دل و دیدہ زباں ساکت و خاموش
اس طرز سے بھی شور فغاں ہم نے کیا ہے
پیہم رہے ہم حسن یقیں کے متجسس
کب کوئی غلط وہم و گماں ہم نے کیا ہے
عبرت کدۂ دہر کی اک کھینچ دی تصویر
جب ذکر جہان گزراں ہم نے کیا ہے
شائستگیٔ فکر کو بھی ناز ہے جس پر
پیدا وہی اسلوب بیاں ہم نے کیا ہے
لبیک کہا ہے رسن و دار کو جس نے
وہ حوصلۂ قلب تپاں ہم نے کیا ہے
خلاق دو عالم کا کیا ذکر و تصور
کیا خوب علاج غم جاں ہم نے کیا ہے
ہم نے ہی بنایا انہیں مردان خوش انفاس
تبدیل رخ بادہ کشاں ہم نے کیا ہے
ہر خلوت و جلوت میں جو کہتے رہے دائم
وہ برسر منبر بھی بیاں ہم نے کیا ہے
ہر حال میں راضی رہے ہم اس کی رضا میں
کب تبصرۂ سود و زیاں ہم نے کیا ہے
کہسار و سما جس کے اٹھانے سے تھے معذور
برداشت وہ اک بار گراں ہم نے کیا ہے
حق گوئی اگر جرم ہے یہ جرم نکو تر
ہم ڈٹ کے یہ کہتے ہیں کہ ہاں ہم نے کیا ہے
انسان ہیں انسان ہم اک اشرف مخلوق
تسخیر جو یہ کون و مکاں ہم نے کیا ہے
جس درجہ پئے عالم بالا ہے ضروری
انعامؔ وہ سامان کہاں ہم نے کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.