کسی دراز میں پڑی ہوں گی
میری آنکھوں سے لپٹی روغنی پتلیاں
جن پہ بہتان ہے
حبس رسیدہ کمرے کی سسکیاں کاٹ کھانے کا
تنومند خاتون کی ترسیب زدہ رانوں کے بیچ
تصادم کے حلقے میں پڑا
زرد سیلن کے خول میں رخنے بنتا
شہر معدوم کا لاشہ نوچتے خدا کو گھورتا ہوا میں
خدا جو سرخ دوشیزہ کے بدن پر کندہ بوسہ گاہوں کے مانند مقدس
سیاہ مست ملاح کی عورت میرے سینے پہ سر رکھتے ہوئے چنگھاڑتی ہے
وہ جہاز کے مستول سے کود کر مرا تھا
جنگ کے دنوں میں پرتگالی حسینہ سے ملاقات
وہ یقیناً مجھے مبتلا کر سکتی تھی
مگر
ہم جزیروں سے خالی ہاتھ لوٹنے والے قسم کھاتے ہیں
ہمارے پاس مشکیزوں میں سستے گڑ کی شراب ہے
اور کچھ دوست جو وافر مقدار میں تمباکو اگا رہے ہیں
سرطانی رطوبتوں میں لتھڑے
ہمارے ٹخنے بارود سے زخمی ہیں
ہم اپنے بازوؤں سے جھڑتے ہوئے بال تمہیں دکھا سکتے ہیں
نم خوردہ بندوقوں اور ناکارہ جیپوں کے علاوہ
ہمارے قبضے میں چند لڑکیاں اور رسد خانے ہیں
دھجیاں اور چیتھڑے سمیٹنے کو نحیف انگلیاں زیادہ نہیں ہیں
نچلی دراز سے میری بہتان زدہ آنکھیں نکال لاؤ
میرے بچے
کاش تمہیں جوانی میں موت آ جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.