Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پہلے سال کا تحفہ

عشرت آفریں

پہلے سال کا تحفہ

عشرت آفریں

MORE BYعشرت آفریں

    سنو

    تم نے مجھے تکمیل کا احساس بخشا ہے

    کہ تم اس جسم میں پہلی تمنا کا شگوفہ ہو

    مگر یوں ہے

    کہ میری کوکھ میں کلکاریوں کی کروٹوں سے قبل

    اندیشے کی کونپل پھوٹ نکلی ہے

    میں اکثر سوچتی تھی یہ اکیلا گھر کبھی آباد بھی ہوگا

    میں اس ان دیکھے مہماں کی پذیرائی میں کیا کیا خواب بھیجوں گی

    میں طاق جاں میں کیسے کیسے گل بوٹے سجاؤں گی

    میں اس کی ایک اک جنبش پہ اظہار و بیاں کے سب دریچے کھول کر

    ساون کے بادل کی طرح

    ہر رنگ میں پاگل ہوا کے ساتھ ہر سو پھیل جاؤں گی

    میں یہ بھی بھول جاؤں گی

    کہ اس اک بوند بھر رشتے کے پیچھے عمر بھر کی سنگساری ہی مقدر ہے

    میں یہ بھی بھول جاؤں گی

    کہ اس ہونے کی لذت اور ذلت نے مجھے کیا کیا رلایا ہے

    میں یہ بھی بھول جانا چاہتی تھی

    کہ میں کس جبر کے سائے میں پل کر

    کیسے اندیشوں کی چادر اوڑھ کر دہلیز اتری تھی

    کہ میں نے خود کو

    بچپن اور جوانی کے گناہوں کی ہزاروں لذتوں سے

    کس طرح محروم رکھا ہے

    مری جاں میں یہ سب کچھ بھول جانا چاہتی تھی

    میں تیری ننھی ننھی انگلیوں کی کونپلوں کا لمس پا کر رقص کر اٹھتی

    تری کلکاریوں کو سوچ کر تنہائی میں ہولے سے مسکاتی

    مگر یوں ہے کہ میرے چار سو جو حشر برپا ہے

    بس اک خاموش ماتم ایک بے آواز نالہ ہے

    میں آنکھیں موندنا چاہوں تو یہ کلکاریاں

    بھوکے بلکتے درد سے بے حال بچے کی کراہوں میں

    بدل جاتی ہیں پل بھر میں

    مری مسکان ڈھل جاتی ہے

    تنہا درد کی ماری تھکی ہاری ہوئی عورت کی آہوں میں

    تھکی ہاری ہوئی عورت کہ جس کی سرد بانہوں میں

    اپاہج دن سسکتا ہے

    مسلسل خانہ جنگی قحط سالی بھوک غربت اور وبائیں

    جس کے دروازے پہ دستک دے رہی ہیں

    جہالت اور نفرت سرحدوں کی پاسبانی کر رہی ہے

    جہاں کھیتوں میں بس بارود اگتا ہے

    سروں پر تاب کاری دھوپ کی چادر تنی ہے

    تھکی ہاری ہوئی عورت جو ملبے پر کھڑی فریاد کرتے

    یہ کن آبادیوں کو یاد کرتی ہے

    میں آنکھیں موندنا چاہوں تو یہ منظر رلاتا ہے

    مری جاں اس گھڑی تو جس بھی پہلو کسمساتا ہے

    مرا دل ہول کھاتا ہے

    مرے چاروں طرف اک خود فراموشی کا جنگل ہے

    غنیم آنکھیں جمائے اور ہوائے شوق پاگل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے