پہلے سال کا تحفہ
سنو
تم نے مجھے تکمیل کا احساس بخشا ہے
کہ تم اس جسم میں پہلی تمنا کا شگوفہ ہو
مگر یوں ہے
کہ میری کوکھ میں کلکاریوں کی کروٹوں سے قبل
اندیشے کی کونپل پھوٹ نکلی ہے
میں اکثر سوچتی تھی یہ اکیلا گھر کبھی آباد بھی ہوگا
میں اس ان دیکھے مہماں کی پذیرائی میں کیا کیا خواب بھیجوں گی
میں طاق جاں میں کیسے کیسے گل بوٹے سجاؤں گی
میں اس کی ایک اک جنبش پہ اظہار و بیاں کے سب دریچے کھول کر
ساون کے بادل کی طرح
ہر رنگ میں پاگل ہوا کے ساتھ ہر سو پھیل جاؤں گی
میں یہ بھی بھول جاؤں گی
کہ اس اک بوند بھر رشتے کے پیچھے عمر بھر کی سنگساری ہی مقدر ہے
میں یہ بھی بھول جاؤں گی
کہ اس ہونے کی لذت اور ذلت نے مجھے کیا کیا رلایا ہے
میں یہ بھی بھول جانا چاہتی تھی
کہ میں کس جبر کے سائے میں پل کر
کیسے اندیشوں کی چادر اوڑھ کر دہلیز اتری تھی
کہ میں نے خود کو
بچپن اور جوانی کے گناہوں کی ہزاروں لذتوں سے
کس طرح محروم رکھا ہے
مری جاں میں یہ سب کچھ بھول جانا چاہتی تھی
میں تیری ننھی ننھی انگلیوں کی کونپلوں کا لمس پا کر رقص کر اٹھتی
تری کلکاریوں کو سوچ کر تنہائی میں ہولے سے مسکاتی
مگر یوں ہے کہ میرے چار سو جو حشر برپا ہے
بس اک خاموش ماتم ایک بے آواز نالہ ہے
میں آنکھیں موندنا چاہوں تو یہ کلکاریاں
بھوکے بلکتے درد سے بے حال بچے کی کراہوں میں
بدل جاتی ہیں پل بھر میں
مری مسکان ڈھل جاتی ہے
تنہا درد کی ماری تھکی ہاری ہوئی عورت کی آہوں میں
تھکی ہاری ہوئی عورت کہ جس کی سرد بانہوں میں
اپاہج دن سسکتا ہے
مسلسل خانہ جنگی قحط سالی بھوک غربت اور وبائیں
جس کے دروازے پہ دستک دے رہی ہیں
جہالت اور نفرت سرحدوں کی پاسبانی کر رہی ہے
جہاں کھیتوں میں بس بارود اگتا ہے
سروں پر تاب کاری دھوپ کی چادر تنی ہے
تھکی ہاری ہوئی عورت جو ملبے پر کھڑی فریاد کرتے
یہ کن آبادیوں کو یاد کرتی ہے
میں آنکھیں موندنا چاہوں تو یہ منظر رلاتا ہے
مری جاں اس گھڑی تو جس بھی پہلو کسمساتا ہے
مرا دل ہول کھاتا ہے
مرے چاروں طرف اک خود فراموشی کا جنگل ہے
غنیم آنکھیں جمائے اور ہوائے شوق پاگل ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.