پیمان وفا
میرے گھر کی یہ دیواریں جیسے پی کر بیٹھی ہیں
میرے جلتے جلتے آنسو میرے لہو کی برساتوں کو
میری تنہائی کے اندھیرے میں آ آ کر ہنستے ہیں
ننھے ننھے کتنے جگنو میری بھیگی پلکوں کے
بجھے دیے کی لو رہ رہ کر آدھی آدھی راتوں کو
اپنی گہری نیند سے جیسے چونک اٹھتی ہے بول اٹھتی ہے
آشاؤں کے سندر مکھڑے پر لالی سی آ جاتی ہے
مرجھائے سے نیل کنول کا اور بھی روپ نکھر آتا ہے
دھیرے دھیرے شیتل جل کی لہریں ساز اٹھاتی ہیں
گیتوں کی نرمل دھارا پر ڈول اٹھتی ہے جیون نیا
ہولے ہولے بہتی جائے بہتی جائے چلتی جائے
سمے کی ندی وہ ندی ہے جو ہر اک کو پار لگائے
ندی کے اس پار کھڑے ہیں میرے بچے میرے بالے
میرے کھیتوں کے سب موتی میرے خزانے کے رکھوالے
میری طرف سب ہاتھ اٹھا کر جیسے خوشی سے چلاتے ہیں
آؤ آؤ کتنی دیر سے راہ تمہاری دیکھ رہے ہیں
تم کو آج کے دن سورج کی کرنوں میں نہلائیں گے
آج ہم اپنی سالگرہ کا پہلا جشن منائیں گے
- کتاب : تیری صدا کا انتظار (Pg. 156)
- Author : خلیل الرحمن اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.