پلٹ آؤ
کہ خوابوں کی زمینوں پر
کسی دنیا کا شہزادہ
کئی قرنوں
کئی صدیوں سے تیری یاد کی چھاؤں میں بیٹھا ہے
اسے اذن حضوری دو
کہ اس کی منجمد برفاب آنکھوں میں خوشی کی تتلیاں اتریں
پلٹ آؤ
کہ اب بھی شہر کی گلیاں
تمہارے پاؤں کی حدت پہ مرتی
بس تمہیں آواز دیتی ہیں
دیے ہر آنے والے سے
تمہارا پوچھتے ہیں
اور دروازے تمہاری آہٹوں میں گم مگر تم
دوریوں کے شہر سے بھی
دور بیٹھے ہو
جہاں آواز بھی جانے سے ڈرتی ہے
پلٹ آؤ
کہ اب بھی راستے امید کی خوشبو سے مہکے ہیں
کہ تنہائی
ہماری روح کے ساحل پہ جب بھی بین کرتی ہے
تمہارا نام لیتی ہے
ہوا جب گنگناتی ہے
تو اس کے سرمئی ہونٹوں سے
تیرے درد میں ڈوبے ہوئے لمحوں کی کچی بور اڑتی ہے
پلٹ آؤ
کہ اب ہم دیوتاؤں کی طرح خاموش رہ رہ کر
تمہارے ہجر کے آزار سہہ سہہ کر
بہت ہی تھک چکے ہیں
ہمیں اب نیند کے لمبے سفر پر لوٹ جانا ہے
جہاں ہم نے زمانے کی نگاہوں سے پرے
اک اور ہی منظر بسانا ہے
پلٹ آؤ
کہ یہ لمحے ہمارا مانس کھانے پر تلے ہیں
زندگی بارود بن کر جسم و جاں میں دوڑتی ہے
آنکھ پتھرائی ہوئی ہے
ہاتھ شل ہیں
اور ہم پہ موت سی چھائی ہوئی ہے
پلٹ آؤ
کہ دل کی دھڑکنیں اب بھی
تمہارے نام کی تسبیح
صبح شام پڑھتی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.