پنہ خواہوں کے مرکز میں سانحہ
وہی زر کار زلفیں تھیں
وہی افرنگیوں کی نیلگوں آنکھیں
کوئی محروم تخت و تاج شہزادی
کسی لوٹی ہوئی بستی کی بربادی
پنہ خواہوں کے مرکز میں کھڑی تھی
اک خیال زرد کی صورت
شرار سرد کی صورت
وہ ان راہوں سے آئی تھی جہاں پر غول پھرتے ہیں
جہاں دکھ دندناتے ہیں جہاں پر ہول پھرتے ہیں
جسے اس کے بدن سے جو ملا اس کا اٹھا کر لے گیا تھا
کوئی بازو کوئی گردن کوئی سینہ چرا کر لے گیا تھا
وفور شوق سے میں اس کی جانب ہاتھ پھیلائے بڑھا
ابھی میں اس کو اپنا جان کر دو بول ہمدردی کے بولوں گا
مگر یہ سوچ کر میں ڈر گیا
مرے قدموں سے اس کے جسم تک کا فاصلہ جیسے لہو سے بھر گیا
وہ نصرانی نکل آئی تو پڑھنے والی گرہیں میں کیسے کھولوں گا
پنہ خواہوں کے مرکز میں
نمائندہ تھا میں مرکز کا
وہ فقط اک پوسنی معصوم لڑکی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.