یہ سچ ہے کہ ہاتھوں میں ترشول تھامے
براگی تمہیں تھے
کھلے آسماں کو تمہیں تک رہے تھے
ہزاروں برس تک تمہیں دیوتاؤں نے کچھ نہ دیا اس جزیرے سے تم لوٹ آئے
اسی دم پرانے سمندر کے کونے میں مونگے چٹانیں بناتے ہوئے تھک گئے تھے
انہیں مچھلیاں کھا گئی تھیں
انیکوں بنوں اپونوں سے گزرتی ہوئی دوڑتی سنسناہٹ انہیں ڈھونڈنے جا رہی تھی
زمیں ایک چکر لگا کے رکی تھی
کہ تم لوٹ آئے
اور پھر بھیک مانگی ہوئی سیپیوں سرد گھونگھوں سے تم نے کئی سرپھرے بت بنائے
مگر اب کہاں ہو
سرشٹی کہاں ہے!
یہاں ایک کمرے میں بجلی کے کالے پلگ کی چمکتی لکیروں سے دو جھانکتے گول سوراخ
اور تاک میں گپت بیٹھی ہوئی موت کی بھوک، لالچ، ہوا میں سلگتی ہوئی سوکھتی ترشنا
کون ہے ....روشنی.... نہیں پیپ کے ڈھیر میں ایک لتھڑی ہوئی ڈوبتی کھوپڑی
دو نشان ملگجے ایک ابلا کہانی کے پیچھے بھٹکتے ہوئے سرد سونے سفر کی بکستی بنسی
کون سوچے گلاب اور جوہی کے پھولوں کی مہکار رستے سے ہٹ کے پرانی ہوئی بجھ گئی
اک زمانہ کنارے کی گھٹناؤں کا ساتھ دیتا برکچھوں سے گرتی ہوئی پتیوں کو سمیٹے
بہاؤ سے ڈرتے ہوئے آخری جل میں بہتا چلا جا رہا ہے
سنو آخری جل تمہارا نہیں ہے کسی کا نہیں ہے!
دشاؤں کے بہروپ، اب ہارتے، ہانپتے، ٹوٹتے جا رہے ہیں
انہیں اتنا مردہ سمجھ لو کہ دیکھے بنا چل پڑو اور چلتے رہو
جنہیں تم کہیں بھول سے وقت کے موڑ پر چھوڑ آئے
وہ اب جا چکے ہیں
انہیں مت بلاؤ
یہاں ایک کمرے کی کھڑکی میں بیٹھے ہوئے سوچتے ہو کہ آنکھیں تمہاری ہیں رچنا تمہاری
ادھر مڑ کے دیکھو بنائے ہوئے ان گنت رنگ
شبدوں کے سانچوں میں ڈھالی ہوئی اپسرائیں نئے فرش پر ڈگمگاتی ہوئی گر پڑی ہیں
سویرے کی نیلاہٹیں گندگی میں لپیٹی ہوئی چھانو میں اونگھتی ہیں
فقط مکھیاں اڑ رہی ہیں
- کتاب : Nai Nazm ka safar (Pg. 225)
- Author : Khalilur Rahman Azmi
- مطبع : NCPUL, New Delhi (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.