پردۂ زنگاری
دیکھ ان ریشمی پردوں کی حدوں سے باہر
دیکھ لوہے کی سلاخوں سے پرے
دیکھ سڑکوں پہ یہ آوارہ مزاجوں کا ہجوم
دیکھ تہذیب کے ماروں کا ہجوم
اپنی آنکھوں میں چھپائے ہوئے ارمان کی لاش
قافلے آتے چلے جاتے ہیں
زندگی ایک ہی محور کا سہارا لے کر
ناچتے ناچتے تھک جاتی ہے
ناچتے ناچتے تھک جاتی ہے
تیرے پر نور شبستاں میں کوئی مست شباب
جس کی پازیب کی ہر لے میں ہزاروں لاشیں
چاندنی رات میں بیتے ہوئے رومانوں کی
اپنی ہر سانس سے باندھے ہوئے پیمانوں کی
چیختی چیختی سو جاتی ہیں
یہ کشاکش یہ تصادم یہ تضاد
مان لیتا ہوں یہ فطرت کی فسوں کاری ہے
ان اصولوں ہی پہ قائم ہے تمدن کا نظام
تو یہ کہتا ہے تو میں بھی تری خاطر اے دوست
مان لیتا ہوں یہ انسان کی تخلیق نہیں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ نگاری میں
تیرا معشوق مرے عہد کا انساں تو نہیں
تیری تمہید مری نظم کا عنواں تو نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.