پیرس
آج اس شہر معطر نے پکارا ہے مجھے
آج پھر نوحہ کناں ہیں یہاں گلیوں والے
یہ وہ گلیاں ہیں جو خوشبو کی قبائیں تھیں کبھی
یہ وہ چہرے ہیں جو مشہور تھے کلیوں والے
انہی گلیوں سے تھی وابستہ نئی فکر کی رہ
انہیں گلیوں میں معانی کے سبق ملتے تھے
وحشت دور سیاست پہ ہوا کرتی تھی بحث
اور قلم ہنستے ہوئے زاویے بن جاتے تھے
مستیٔ تیرہ شبی پر ہے گنہ کا خاکہ
شیخ و ملا و کلیسا ہو کہ شہہ کا خاکہ
صورت مذہب و ایمان و مودت پہ خاک
اور اک پل میں کسی دین پنہ کا خاکہ
جو عدو ہیں وہ ہمارے ہی عدو کب ہیں فقط
ہم ہدف کب ہیں کہ ان کا ہدف آسانی ہے
ان کو معلوم نہیں ہم ہیں کوئی شوکت ضو
علم کا قتل فقط مذہبی نادانی ہے
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی قیامت ٹوٹی
اس سے پہلے بھی سجا علم کا مقتل لوگو
اس سے پہلے بھی تو وحشت کا چلن عام ہوا
اس سے پہلے بھی تو برسا یہی بادل لوگو
نوک خنجر بھی وہی شہر کا مقتل بھی وہی
مکتب و طفل رہ علم کی گردن ہوئی داغ
شب ہویدا ہوئی تاریکیاں جب جب بھی بڑھیں
خلقت شہر فروزاں نے جلائے ہیں چراغ
ارتقا شر یا شریعت سے نہیں رک سکتا
یہ قصیدہ بھی نئے عہد سے پیوستہ ہے
یعنی سورج جو بجھے گا تو جل اٹھیں گے دیے
کارواں صبح کا اس لو ہی سے وابستہ ہے
پھر بنیں گے نئے خاکے کہ یہی صورت شب
وحشت دور سیاست کی گواہی ہوگی
شہر بھی شہر گلستاں کی طرح جاگے گا
لفظ کے ہاتھ سے دہشت کی تباہی ہوگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.