ہنسی کھوکھلی سی ہنسی
اور پوتھی پہ اک ہاتھ رکھ کر
مجھے گھور کر
گنگنایا
یہاں سے وہاں تک
مجھے ایک بھی سبز پتہ دکھائی نہیں دے رہا
ایک بھی بانسری کی مدھر تان
پانی کی گاگر کے نیچے چھلکتی ہوئی وحشی ہرنی سی آنکھیں
کوئی ایک چمکیلا آنسو بھی باقی نہیں ہے
دھواں راکھ اور خون
دھرتی کی اجڑی ہوئی کوکھ میں چند جھلسی ہوئی ہڈیاں
ادھ جلے پریم پتروں کے ڈھانچے
درختوں کی لاشیں
مکانوں کی اڑتی ہوئی دھجیاں
سونے رستوں پہ پھرتی ہوئی کھوکھلی سی ہوا کے سوا
اور کچھ بھی مجھے یاں دکھائی نہیں دے رہا
بڑی دیر تک میں نے بوڑھے نجومی کی باتیں سنیں
اور آباد راہوں پہ خوش پوش جوڑوں کو آنسو کی چلمن سے دیکھا کیا
پھر اچانک
نہ جانے کہاں اک بگل سا بجا
اور نہ جانے وہ کیسے نکل کر مرے سامنے آ گیا
ایک بھینگا مڑے ناخنوں والا عفریت
جو پہلے دن سے
مری آنکھ میں چھپ کے بیٹھا ہوا تھا
مرے خون پر پل رہا تھا
- کتاب : Wazeer Aagha Ki Nazmen (Pg. 93)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.