پھانسی کا مجرم
جاگا کیا ہوں رات بھر
بے خواب آنکھوں میں بسی تھیں کتنی ہی پرچھائیاں
جن کو نہ مل پایا بدن
پلکوں پہ جمتے جاتے تھے آنسو چٹانوں کی طرح
جن کو تراشو لاکھ کوئی محل بننے کا نہیں
اک آگ کا ٹھنڈا دھواں کیا جانے کتنی تلخیوں کا رازداں
تنہائیوں کے دوش پہ بادل سا لہراتا رہا
یہ کھیل بھی کیا کھیل تھا
جیسے کوئی لیتا ہو میرے بازوؤں میں منہ چھپا کر سسکیاں
کہتا ہو پہچانو ذرا میں کون ہوں کیا ربط ہے تم سے مرا
میں یہ پہیلی بوجھنے کو تا سحر جاگا کیا
تھی رات بھاری کس قدر یہ کیا کہوں
جیسے کسی مقتول کی بالیں پہ مفلس اقربا چپ ہو گئے ہوں روتے روتے دیر تک
رہ رہ سمٹتی شب گزیدہ رہ گزر
اک سنسناتے تیر سی
خوابوں کے پھندے کاٹتی
آواز پہرے دار کی
تاریکیوں کی وادئ خاموش میں
اس طرح لاٹھی کے ٹھہوکے گونجتے
جیسے لگاتا ہو کوئی پھانسی کا مجرم قہقہے
کیا میں بھی مجرم ہوں کوئی
کیا جانے کیا ہو ساعتوں کا فیصلہ
یہ کون جانے دفعتاً کب ٹھنڈے بستر سے اٹھوں
دہلیز پر آ جاؤں
اور اس رہ گزر پر چل پڑوں
ورنہ یہ لمبی رات لمبی اور بھی ہو جائے گی
لیتا رہے گا کوئی میرے بازوؤں میں منہ چھپا کر سسکیاں
میں اس کو پہچانوں گا کیا
وہ میرا دکھ جانے گا کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.