پیلے دیے
ہو تصور عشق کا اور ہو سیاہی رات کی
عمر نازک موم سی ہو یاد ہو اس بات کی
شہر کی ٹھنڈی ہوا چہرے پہ میں لیتا ہوا
خوش نصیبی کا وہ امکاں جیسے ہو پہلا جوا
تھک گئے جو شور سے تو گھر کو جائے مے پئے
ٹار کی لمبی سڑک ہو اس پہ ہوں پیلے دیے
عمر جیسے کٹ رہی ہو اور گھٹتی بھی نہ ہو
عشق کی کالی گھٹا ہو اور چھٹتی بھی نہ ہو
اس کے خط کی راہ دیکھوں وقت میں ضائع کروں
اور اس کے خواب میں بھی کاش میں آیا کروں
خوشبو یک دم پھول کی ہو ہو دھوئیں کے سلسلے
ٹار کی لمبی سڑک ہو اس پہ ہوں پیلے دیے
ہو سہانی تخلیہ ہو غم جو ٹلنے والا ہو
یار میرا ساتھ میرے آہ بھرنے والا ہو
جیسے سڑکیں بھی یہاں بستر کے جیسی نرم ہوں
ہو تو سردی سرد لیکن لمس اس کا گرم ہو
میری ادنیٰ زندگی ہو اس کے ادنیٰ مرحلے
ٹار کی لمبی سڑک ہو اس پہ ہوں پیلے دیے
یہ بھی توڑے جا رہے ہو آشیاں بننے تو دو
میں تو بوڑھا بھی نہیں نوسٹالجیا بننے تو دو
کلپرکش اور آب آب کوثر سوچتے ہو دور کی
شرم ہے گر چاہ ہو اس شہر میں بھی حور کی
جنتوں کا ہے تصور بس یہی میرے لیے
ٹار کی لمبی سڑک ہو اس پہ ہوں پیلے دیے
مجھ کو جھرنوں کی ہوس نئی اور کنول نہ ہی جھیل کی
مجھ کو چڑھ بھی ہے نہیں اس فیکٹری اس میل کی
اک بچا ہے لال سورج اس کو تو تم رہنے دو
اس کے مکھڑے کا جو ٹکڑا چاند وہ تو رہنے دو
ورنہ پھر تو اس شہر میں کیا مرے اور کیا جئے
ٹار کی لمبی سڑک ہو اس پہ ہوں پیلے دیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.