سب بال پک گئے ہیں کمر ہو گئی ہے خم
آنکھوں سے سوجھتا تو ہے لیکن بہت ہی کم
ہاتھوں میں کپکپی ہے کبھی پھولتا ہے دم
برہم ہیں دانت کہتے ہیں ٹھہریں گے اب نہ ہم
پیری نے آ کے لوٹ لی دولت شباب کی
حالت بگڑ گئی دل خانہ خراب کی
پیری ہے آدمی کے لئے اک وبال جاں
آمد ہے اس کی موت کی آمد کا اک نشاں
جب تن کی مملکت پہ یہ ہوتی ہے حکمراں
طاقت جواب دیتی ہے منہ دھوتا ہے دھواں
ہوش و ہواس و عقل و خرد جوش و ولولے
سب کہتے ہیں پکار کے لو اب تو ہم چلے
جھک جاتا ہے وہ تیر سا قد ہو کے پھر کماں
یعنی کہ زندگی کا ہے بار اس پہ اب گراں
چلنے میں بولتے ہیں جو پیروں کے استخواں
کہتے ہیں اپنی ضعف و نقاہت کی داستاں
ہے لطف و عیش زیست کہ جب تک شباب ہے
پھر اس کے بعد زیست سمجھ لو عذاب ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.