پیتل کا سانپ
اور پیتل کا یہ زہریلا سانپ
جس کی نازک سی زباں پر یہ خنک شمع کی لو
لہر کی طرح اندھیرے میں اٹھا کرتی ہے
میرے اک دوست نے تحفے میں مجھے بھیجا ہے
ہیں یہ ٹیگور کے بے ربط تخیل کے نقوش
اور یہ چین کے نغمات کا مجموعہ ہے
میز کے گوشے پہ رکھا ہوا گوتم کا یہ بت
تم کو اچھا نہ لگے گا شاید
مدتیں گزریں اسی کمرے میں جس میں ہم تم
گفتگو کرتے تھے
اس جنگ پر
اس دنیا پر
اور موجودہ ادب پر یہ خیالات کی رو
آرٹ اور جنگ
جنوری کی یہ حسیں رات اور اس پر اے دوست
یہ مسہری جو پڑی ہے میری
جس کے بازو پہ یہ پیتل کے حسیں سانپ کا عکس
آج کی رات بھی لہراتا ہے
تم کوئی پریوں کا قصہ تو نہ سمجھو گے اسے
میں اگر تم سے کہوں
یہ کہ پیتل کے اسی سانپ نے کاٹا ہے اسے
ایک معصوم سی دوشیزہ کو
جنوری کی یہ حسیں رات اور اس پر اے دست
میرے آراستہ کمرے کا نکھار
ایک پکار
سرد اور موت کی مانند اندھیری اک رات
بوندیں جاڑے کی
غریبی کے مسلسل آنسو
ایک عورت کی جبیں پر تارے
سرد تاریک ستارے یعنی
ایک دوشیزہ کے رخسار پہ بوسوں کے نشاں
نقرئی بوسے
طلائی بوسے
اب بھی ہر رات اسی کمرے میں
اسی شیشے کی مسہری پہ کتابیں لے کر
''چین کی نظموں کا مجموعہ
نقوش ٹیگور
اور کبھی سادے سے کاغذ پہ خود اپنے ہی خیالوں کے لیے
ایک سکوں
ایک گناہوں کے لیے
ایک قرار''
کچھ اسی قسم کے افکار میں بس ڈوبا ہوا
سو ہی جاتا ہوں بہرحال اے دوست
میز پر رکھے ہوئے بت کے حسیں سائے میں
اور پیتل کا یہ زہریلا سانپ
شمع کو ڈس کے سویرے ہی سے چلا جاتا ہے
''جنگ موت اور گناہ!!''
- کتاب : azadi ke bad urdu nazm (Pg. 307)
- Author : shamim hanfi and mazhar mahdi
- مطبع : qaumi council bara-e-farogh urdu (2005)
- اشاعت : 2005
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.