مجسم تقدس سفیدی میں ڈوبا
بڑی شان سے چھوٹی کھڑکی میں آیا
زمیں پر پڑے اک سروں کے سمندر
کو نظروں کا پرشاد دے کر
بہت عاجزی سے
محل کے کشادہ کسی کمرے میں کھو گیا
یقیناً عبادت کی خاطر
نیا سال آیا
مسیحائی تازہ لبوں پر سجا کر
چمکدار سونے کی لاٹھی سنبھالے
زری کے لباس کشادہ میں ملبوس دھیرے سے گویا ہوا
فقط عاجزی ہے علاج
بڑھو درد کے ماروں کو بڑھ کے تھامو
نہ چھوٹے یہ دامن کبھی عاجزی کا
عقیدت کا ہالہ گلے میں پڑی سرخ شال
اور اس پر زر و سیم و نقش و نگار
بہت بوجھ ہے وہ سنبھالے ہوئے
چھت اور حال اور سرخ پردوں پہ ہے وجد طاری
مگر اس سے عاری سمندر کے پار
بے ہنگم اگے خود رو جنگل کی اولاد
کولمبس کی نسلوں کے پیروں تلے کچی مٹی کے ڈھیر
قبیلوں کے کیڑے مکوڑے زمینوں کے بوجھ
سنبھالے ہوئے اپنے کانوں کے آنکھوں کے کشکول
جڑے دیکھنا چاہتے ہیں جو لرزیدہ اکڑے ہوئے ہاتھ
گھسٹتے چلے آئے ہیں رینگتے رینگتے
تقدس کو اپنی معافی کی خیرات دینے کے خوش فہم
ادب نا شناس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.