لیکن وہ نہیں گیا
اسے معلوم ہوا کہ اس کی ماں
بستر مرگ پر پڑی ہے
اور شاید چند دنوں کی مہمان ہے
لیکن وہ نہیں گیا
یہ وقت ایسا ہوتا ہے
جب مرنے والا
پیچھے رہ جانے والوں سے
اور زندہ رہ جانے والے
آگے جانے والوں سے
اپنی اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہیں
اور بچے اپنی ماؤں سے
دودھ بخشوانے دوڑے چلے آتے ہیں
لیکن وہ پھر بھی نہیں گیا
وہ عجیب مخمصے میں پڑ گیا
اگر اس نے دودھ نہیں پیا
تو ٹھیک ہے
لیکن اگر پیا ہے
تو دودھ جوش کیوں نہیں مارتا
اسے سب یاد آ رہا تھا
باپ ہی نے اسے پالا پوسا
اس کا بچپن اور باپ کی جوانی
ساتھ ساتھ گزرے
اس کی نوخیز عمری
اور باپ کی ادھیڑ عمری ایک ساتھ آئے
باپ بڑے شوق سے
اس کی شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا
کہ قتل ہو کر راہیٔ ملک عدم ہو گیا
اور وہ مبہوت اکیلا
کھڑے کا کھڑا رہ گیا
اس کی شادی کاروبار نوکری
حتی کہ اس کے بچوں سے
اس عورت کا
جسے اب وہ ماں سمجھنے لگا تھا
بس اتنا ہی تعلق رہا
جتنا کہ کسی بھی دوسرے شخص
کا ہو سکتا ہے
یہاں تک کہ آج اس کی
یہ ماں بھی مر گئی
جنازے پر جانا بے کار لگا
آج کیوں کس کے لئے
کسی نے کان میں کہا
مرنے والوں سے کیا اختلاف
وہ تو ان کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں
ہاں زندوں سے ممکن ہے
میت کے سرہانے بیٹھا
تو روح کے سارے چراغ
ایک ایک کر کے روشن ہو گئے
وہ تمام عمر اس عورت کے پیار ہی نہیں
اس کی دعاؤں کو بھی ترستا تھا
اور اب ترستا ہی رہے گا
یک دم اس کے بدن نے جھرجھری لی
اور نفرت کی روح
جیسے ہمیشہ کے لئے پرواز کر گئی
لوگ قبر کو مٹی دے رہے تھے
اس نے بھی چھ دہائیوں سے
مٹی میں پکڑی
اپنی چاہت کی اگلی پوٹلی
آہستگی سے لڑھکا دی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.